حمد

یارب نفس نفس میں ہے پنہاں ترا پیام
دنیا کا ذرہ ذرہ کرے ورد تیر ا نام
تیرےہی نور سےہیں فروزاں مہ و نجوم
روشن ہے آفتاب ہے د رخشاں مہ ِ تمام
سیراب سب ہوئےترےزمزم کےفیض سے
لوٹا نہیں ہے در سے ترےکوئی تشنہ کام
مل جائےمجھ کو ایک ہی سجدہ نصیب سے
گھر میں ترےجہاں ہے براہیم کا مقام
کر لےقبول ساری دعائیں جو دل میں ہیں
نیناں یہاں سےجائےگی ہرگز نہ تشنہ کام
 
 
_________
 
 
نعت

دل مرےساتھ اب مدینےچل
چل گناہوں کےداغ دھونےچل
رات دن ہم جو کرتےرہتےہیں
اُن خطاؤں پہ آج رونے چل
آپ کے روضہء مقدس کا
کر طواف اور کونےکونےچل
آبِ زمزم کےپاک قطروں سے
اپنےاعمال کو بھی دھونےچل
خاکِ طیبہ بڑی مبارک ہے
اُس میں اپنی دعائیں بونےچل
بھرلے نیناں میں نور کےموتی
ان کو پلکوں میں پھر پرونے چل
 
 
_________
 
 
 
درد کی نیلی رگیں یادوں میں

درد کی نیلی رگیں یادوں میں جلنےکے سبب
ساری چیخیں روک لیتی ہیں سنبھلنےکے سبب
درد کی نیلی رگیں تو شور کرتی ہیں بہت
پیکرِ نازک میں اس دل کے مچلنےکے سبب
درد کی نیلی رگیں برفاب بستر میں پڑی
ٹوٹ جاتی ہیں ترےخوابوں میں چلنےکےسبب
درد کی نیلی رگیں عمروں کےنیلے پھیر کو
زرد کرتی جاتی ہیں صحرا میں پلنےکے سبب
درد کی نیلی رگیں ہاتھوں میں دوشیزاؤں کی
چوڑیاں تک توڑدیتی ہیں بکھرنےکے سبب
درد کی نیلی رگیں ٹھنڈی ہوا سے اشک ریز
سر خ ہوتی رہتی ہیں آ نسو نگلنےکے سبب
درد کی نیلی رگیں نیناں سمندر بن گئیں
ہجر کی راتوں کاپہلا چاند ڈھلنےکے سبب
 
_________

 

مثال ِ برگ

مثال ِ برگ میں خود کو اڑانا چاہتی ہوں
ہوائے تند پہ مسکن بنانا چاہتی ہوں
وہ جن کی آنکھوں میں ہوتا ہے زندگی کا وبال
اسی قبیلے سے خود کو ملانا چاہتی ہوں
جہاں کےبند ہیں صدیوں سےمجھ پہ دروازے
میں ایک بار اسی گھر میں جانا چاہتی ہوں
ستم شعار کی چوکھٹ پہ عدل کی زنجیر
برائے داد رسی کیوں ہلانا چاہتی ہوں
نجانےکیسےگزاروں گی ہجر کی ساعت
گھڑی کو توڑ کےسب بھول جانا چاہتی ہوں
مسافتوں کو ملے منزل ِ طلب نیناں
وفا کی راہ میں اپنا ٹھکانہ چاہتی ہو ں
 
 
_________
 
 
درد کی نیلی رگیں تہہ سے

درد کی نیلی رگیں تہہ سے اُبھر آتی ہیں
یاد کے زخم میں چنگاریاں در آتی ہیں
روز پرچھائیاں یادوں کی، پرندے بن کر
گھر کے پچھواڑے کے پیپل پہ اتر آتی ہیں
صورتیں بنتی ہیں چاہت کی یہ کس مٹی سی
بارہا مٹ کے بھی یہ با ردگر آتی ہیں
اودے اودےسےصفورےکی گھنی شاخوں سے
یاد کی سر مئی کرنیں سی گز ر آتی ہیں
روز کھڑکی سے قریب آم کے اس پیڑ کے پاس
طوطیاں چونچ میں لےلےکے سحر آ تی ہیں
اک وراثت کی طرح گاؤں کی گڑ سی باتیں
گٹھڑیاں باندھ کے اس دل کےنگر آتی ہیں
جتنا بھی چاہوں تری راہ سے بچ کر نکلوں
تہمتیں اتنی زیادہ مرے سَر آتی ہیں
اتنی سی بات پہ اچھی نہیں شوریدہ سری
شام کو چڑیاں تو سب اپنے ہی گھر آتی ہیں
شرم سےالجھےدوپٹےکی جو کھولوں گر ہیں
دل کی نیناں رگیں سب کھلتی نظر آتی ہیں
 
 
_________
 
 
روز دیکھا ہے
روز دیکھا ہے شفق سے وہ پگھلتا سونا
روز سوچا ہےکہ تم میرے ہو ، میرے ہو نا
میں تو اک کانچ سے دریا میں بہی جاتی ہوں
کھنکھناتے ہوئے ہمراز مجھے سن لو نا
میں نے کانوں میں پہن لی ہے تمہاری آواز
اب مرے واسطے بیکار ہیں چاندی سونا
میری تنہائیاں چپکے سے سجا دو آکر
اک غزل تم بھی مرے نام کبھی لکھونا
روح میں گیت اترجاتے ہیں خوشبو کی طرح
گنگناتی سی کو ئی شام مجھے بھیجو نا
چاندنی اوس کےقطروں میں سمٹ جائیگی
روشنی اس کے سویرے میں کہیں ڈھونڈو نا!
پھر سے آنکھوں میں وہی رنگ سجا لے نیناں
کب سےخوابوں کو یہاں بھول گئی تھی بونا
 
 
_________
 
 
ترےخیال سے

ترےخیال سےآنکھیں ملانے والی ہوں
سجے سروپ کا جادو جگانے والی ہوں
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
کسی کے لمس کی گرمی چرانے والی ہوں
اُسےجو دھوپ لئےدل کےگاؤں میں اترا
رہٹ سے،چاہَ ، کا پانی پلانے والی ہوں
ذرا سی دیر میں برسے گا رنگ بادل سے
میں اب گھٹا کا پراندہ ہلانے والی ہوں
جہاں پہ آم کی گٹھلی دبی تھی بھوبھل میں
وہیں پہ اپنے دکھوں کو تپانے والی ہوں
اس اَلگنی پہ اکیلے لرزتے قطرے کو
اٹھا کے نیناں میں سرمہ بنانے والی ہوں
 
 
_________
 
 
آدھی رات کے سپنے

آدھی رات کے سپنے شاید جھوٹے تھے
یا پھر پہلی بار ستارے ٹوٹے تھے
جس دن گھر سےبھاگ کےشہر میں پہنچی تھی
بھاگ بھری کےبھاگ اُسی دن پھوٹے تھے
مذہب کی بنیاد پہ کیا تقسیم ہوئی
ہمسایوں نے ہمسائے ہی لوٹے تھے
شوخ نظر کی چٹکی نے نقصان کیا
ہاتھوں سے جب چائے کے برتن چھوٹے تھے
اوڑھ کےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
اُس ریشم کی شال پہ یاد کے بوٹے تھے
 
 
_________
 
 
کوئی بھی

کوئی بھی نہ د یوار پر سے پکارے
مگر ذہن یادوں کے اپلے اتارے
میں پلکیں بچھاتی رہوں گی ہوا پر
مجھے ہیں محبت کے آداب پیارے
قبیلے کے خنجر بھی لٹکے ہوئے ہیں
کھڑی ہیں جہاں لڑکیاں دل کو ہارے
پلٹ کر صدا کوئی آتی نہیں جب
مر ا دل کسی کو کہاں تک پکارے
بنایا ہے تنکوں سے اک آشیانہ
کھڑی ہوں ابھی تک اسی کےسہارے
بہت ذائقوں کو سمیٹے ہوئے تھے
یہ جذبوں کے جھرنے نہ میٹھے نہ کھارے
مسلسل مرے ساتھ چلتی رہی ہے
ہوا دھیرے دھیرے سمندر کنارے
لگاتار روتی ہے لہروں کی پائل
سدا جھیل میں ہیں شکاری شکارے
کسک میں ہے نیناں بلا خیز سوزش
دہکتے ہیں سینے کے اندر شرارے
 
 
 
 
Make a Free Website with Yola.